اورنگزیب عالمگیر کے حوالے سے جو منفی باتیں عام کی گئیں اور جس بنیاد پر انہیں سب سے زیادہ بدنام کیا گیا، وہ ہندوؤں کے خلاف ان کا مبینہ تعصب ہے۔ مگر تاریخ کا مطالعہ ان الزامات کی تصدیق نہیں کرتا۔
اورنگزیب کی وسیع و عریض بیوروکریسی میں ہندو اہلکاروں نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ انہیں روزگار کے مواقع فراہم کیے گئے اور ترقی کی راہیں کھلی رکھی گئیں۔
مغل بیوروکریسی میں ہندوؤں کی شمولیت دراصل ایک سوچا سمجھا سیاسی اقدام تھا، جسے اورنگزیب نے خاص طور پر دکن میں دلوں، ذہنوں اور علاقوں پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے اپنایا۔
اورنگزیب کو اپنے ریاستی عہدیداروں کی مذہبی شناخت سے کوئی غرض نہیں تھی۔ ان کے نزدیک انتخاب کا معیار صرف اور صرف انتظامی مہارت اور قابلیت تھا۔
مثال کے طور پر، دارا شکوہ اور اورنگزیب کے مابین جنگ میں، جہاں راجپوتوں کی اکثریت دارا کے ساتھ تھی، وہیں مراٹھا سرداروں کی بڑی تعداد اورنگزیب کے جھنڈے تلے صف آرا تھی۔ اگر دارا کے ساتھ چوبیس اعلیٰ درجے کے ہندو سردار تھے تو اورنگزیب کے ساتھ بھی اکیس سردار شریک تھے۔
اکبر کے دور میں مغل اشرافیہ میں ہندو امراء کا تناسب 22.5 فیصد تھا، اور شاہجہاں کے دور میں بھی اس تناسب میں کوئی خاص اضافہ نہ ہوا۔ لیکن 1679 سے 1707 کے درمیان اورنگزیب نے مغل ریاست کی اشرافیہ میں ہندوؤں کی شرکت تقریباً پچاس فیصد تک بڑھا دی۔
اورنگزیب آخر وقت تک اس اصول پر قائم رہے کہ مغل ملازمت کے لیے مذہب کوئی شرط نہیں ہونا چاہیے۔ ایک موقع پر، بخارا سے تعلق رکھنے والے ایک مسلمان افسر نے درخواست کی کہ فارسیوں کو شاہی ترقی سے محروم کر دیا جائے کیونکہ وہ شیعہ ہیں اور سنی نہیں۔
اورنگزیب نے یہ تجویز سختی سے مسترد کرتے ہوئے لکھا:
*دنیاوی معاملات کا مذہب سے کیا واسطہ؟ اور انتظامی امور میں تعصب کی مداخلت کا کیا جواز؟ تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا\”
اگر میں تمہاری یہ بات مان لوں تو پھر یہ بھی لازم ہو جائے گا کہ تمام ہندو راجاؤں اور ان کے پیروکاروں کو ان کے عہدوں سے معزول کر دوں۔ لیکن یاد رکھو، ایک دانا حکمران کبھی بھی قابل افراد کو ان کے مناصب سے محروم نہیں کرتا
