منموہن سنگھ

\”میں عوامی تعلقات کا ماہر نہیں ہوں، لیکن اپنے کام میں مہارت رکھتا ہوں۔\”

مگر ہندوستانی سماج کو کام سے زیادہ تقریر کی لذت چاہیے تھی۔ مولانا عطا اللہ شاہ بخاری نے مسلمانوں کے بارے میں کہا تھا:

\”مسلمانوں کو رزم کے حدی خوان کی نہیں، بزم کے نغمہ خوان کی ضرورت رہی ہے اور وہ ہمیشہ گفتار کے غازی کا ہی اتباع کرتے ہیں۔\”

کیا یہ بات پورے ہندوستانی سماج پر صادق نہیں آتی؟

منموہن سنگھ، جن کی خاموشی میں وقار اور الفاظ میں حکمت تھی، جب دنیا کے سب سے بااثر رہنماؤں (G20) کے سامنے مخاطب ہوتے، تو محفل میں سکوت چھا جاتا۔ بقول باراک اوباما:

\”جب وزیرِاعظم سنگھ بولتے ہیں، تو لوگ سنتے ہیں۔\”

چاہے قوم نے ان کی قدر کی ہو یا نہ کی ہو، لیکن انھیں اپنے کام اور اپنی راہ پر کامل یقین تھا۔ ان کے اپنے الفاظ اس یقین کی گواہی دیتے ہیں:

\”فیصلہ آپ پر ہے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے، میں سمجھتا ہوں کہ میں نے معقول حد تک بہتر کام کیا ہے۔ گزشتہ دس سالوں میں، عالمی مالیاتی بحران، یورو زون کی کساد بازاری، اور دیگر ابھرتے ہوئے ممالک جیسے برازیل، جنوبی افریقہ، اور انڈونیشیا کی حالت کو دیکھتے ہوئے، ہمارا سفر کسی ناکامی یا بے اہمیت کہانی کے طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا۔\”

اور ان کے اعتماد کا عروج ان کے ان الفاظ میں جھلکتا ہے:

\”میں نہیں مانتا کہ میں ایک کمزور وزیرِاعظم تھا۔ یہ فیصلہ مورخین پر چھوڑتا ہوں۔ بی جے پی اور اس کے حامی جو چاہیں کہیں۔ لیکن اگر ’مضبوط وزیرِاعظم‘ کی تعریف یہ ہے کہ آپ احمد آباد کی سڑکوں پر معصوم شہریوں کے قتلِ عام کی قیادت کریں، تو میں ایسی طاقت کو ہندوستان کے لیے موزوں نہیں سمجھتا، اور نہ ہی یہ ملک ایسے وزیرِاعظم کا متحمل ہو سکتا ہے۔\”

یہی منموہن سنگھ کی عظمت تھی، جو اپنے سکوت میں شور اور اپنے وقار میں روشنی رکھتے تھے۔

  • شبیع الزماں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *