موہن بھاگوت

پونے میں موہن بھاگوت کے مندر-مسجد والے بیان کو بعض حلقے خاصی سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں، لیکن اس کے پیچھے چھپی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب موہن بھاگوت نے ایسا کوئی بیان دیا ہو، جس سے یہ تاثر پیدا ہو کہ سنگھ نے اپنے رویے میں نرمی پیدا کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سنگھ کی زبان ہمیشہ دھوکہ دہی کی عکاس رہی ہے، ایک ایسی زبان جو مبہم بھی ہے اور دو معنویت سے بھرپور بھی۔

سنگھ ایسے بیانات کے ذریعے نہ صرف عوام بلکہ ناقدین کو بھی گمراہ کرتا ہے۔ ہندوستان اور بیرونِ ہندوستان بیٹھے تجزیہ کاروں کو ایک ایسا فریب دیا جاتا ہے، گویا سنگھ تشدد کے خلاف ہے اور یہ سب کارروائیاں چند بے قابو عناصر کی کارستانیاں ہیں۔ ساتھ ہی، ہندو سماج کے وہ طبقے جو سنگھ کی کچھ پالیسیوں سے ہم آہنگی رکھتے ہیں لیکن اس کے شدت پسند رجحانات کو ناپسند کرتے ہیں، انہیں بھی اس چالاکی سے اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ سنگھ کو سمجھنا دیگر تنظیموں کی نسبت زیادہ پیچیدہ ہے۔ یہ ایک ایسا معمہ ہے جسے صرف اس کے آفیشل بیانات کی روشنی میں سلجھایا نہیں جا سکتا۔ سنگھ جو کچھ عوامی فورمز پر کہتا ہے اور جو زمینی سطح پر کرتا ہے، ان دونوں میں واضح تضاد پایا جاتا ہے۔ یہی نہیں، اس کا لٹریچر بھی اسی تضاد کا آئینہ دار ہے، جہاں قاری کو ایک ہی موضوع پر متضاد خیالات ملتے ہیں، گویا دو الگ داستانیں ایک ہی کتاب میں قید ہوں۔

موہن بھاگوت کا حالیہ بیان آر ایس ایس کی بنیادی پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی کا غماز نہیں بلکہ ایک حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اس کا مقصد مذہبی کشیدگی کو وقتی طور پر کم کرنا اور ماحول کو اپنے مقاصد کے لیے سازگار بنانا معلوم ہوتا ہے۔ تاہم، اس بیان کی اصل نوعیت اور اثرات سنگھ اور حکومت کی آئندہ عملی کارروائیوں سے ہی ظاہر ہوں گے۔

سنگھ کی تنظیم میں علامتی طور پر بہت کچھ ہوتا ہے ، اس کا کیڈر بخوبی جانتا ہے کہ اس طرح کے بیانات محض سیاسی ضرورتوں کے تحت دیے جاتے ہیں۔ اصل نظریہ وہی ہے جو انہیں شب و روز سکھایا جاتا ہے، وہی عقیدہ جو ان کی بنیادوں میں گڑا ہوا ہے۔

لہٰذا، سنگھ کو سمجھنے کے لیے صرف اس کے بیانات پر انحصار کرنا غلطی ہوگی۔ اس کے اصلی ارادے اور مقاصد کو سمجھنے کے لیے اس کی زمینی سرگرمیوں پر نظر رکھنی ہوگی، وہی سرگرمیاں جو اس کی حقیقی فکری اور عملی بنیادوں کو عیاں کرتی ہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *