وہی قاتل وہی منصف عدالت اس کی وہ شاہد

عدالت دنیا کی تمدّنی تاریخ کا قدیم ترین ادارہ ہے۔ جسکا مقصد ظلم و زیادتی کے مقابلے انصاف کا قیام ہے۔ لیکن انصاف کے اس ادارہ سے عدل و انصاف کے ساتھ ظلم و ناانصافی کے فیصلے بھی ہمیشہ ہی سےہوتے رہے ہیں۔
عدالت انسانی تاریخ میں ایسا مقام ہے کہ ہر دوطرح سے اسکا استعمال ہوتا رہا ہے ۔ انصاف پسند ججوں نے اِنھیں عدالتوں سے وہ فیصلے صادر کیے کہ انکے عدل،بے باکی اور جرّات کو دیکھ کر دنیا ششدر رہ گئی اور انھیں عدالتوں سے ظلم ،انتقام اور نا انصافی کے وہ فیصلے بھی ہوئے کہ انسانیت شرمسار ہوگئی۔
ان عدالتوں کے کٹہروں میں صرف چور،ڈاکو،مجرم اور گنہگار ہی پیش نہیں ہوئے بلکہ بے گناہ اور مقدس ترین لوگ بھی مجرم کی حیثیت سے پیش ہوتے رہے ہیں۔

یہاں حضرت مسیح، ابن تیمیّہ ،احمد بن حنبل اور مجدّد الف ثانی جیسے مقدس لوگ بھی کھڑے کیے گئے ۔
یہاں سقراط اور گلیلیو جیسے عبقری لوگوں کو سچ بولنے کے جرم میں حاضر کیا گیا اور سیّد قطب اور محمد مرسی جیسے اسلام پسندوں کو بھی مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا۔

لیکن ان عدالتوں کا سب سے زیادہ غلط استعمال اس وقت ہوا ہے جب کبھی ظالم حکمرانوں نے آزادی اور سچائی کو دبانا چاہا۔ مولانا آزاد لکھتے ہیں \” تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی حکمراں طاقت نے آزادی اور حق کے مقابلے میں ہتھیار اٹھائے ہیں تو عدالت گاہوں نے سب سے زیادہ آسان اور بے خطا ہتھیار کا کام دیا ہے ۔ تاریخ عالم کی سب سے بڑی نا انصافیاں میدان جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں میں ہی ہوئی ہیں۔ بلا شبہ زمانے کے انقلاب سے عہد قدیم کی بہت سی برائیاں مٹ گئیں۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ اب دنیا میں دوسری صدی عیسوی کی خوفناک رومی عدالتیں اور مڈل ایجیز کی پراسرار انکویزیشن وجود نہیں رکھتیں ۔لیکن میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ جو جذبات ان عدالتوں میں کام کرتے تھے ان سے بھی ہمارے زمانے کو نجات مل گئی ہے۔ وہ عمارتیں ضرور گرادی گئیں جن کے اندر خوفناک اسرار بند تھے۔ لیکن ان دلوں کو کون بدل سکتا ہے جو انسانی خود غرضی اور نا انصافی کے خوفناک رازوں کا دفینہ ہیں \”

لیکن عدالتوں کی نا انصافیوں، ظالموں کے ظلم اور جابروں کے جبر کے باوجود دنیا میں لوگ سچ بات کہتے رہے ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت انھیں نہیں روک پائی .خدا کی اس زمین میں جہاں ظالم اور جابر پیدا ہوتے رہے وہیں ان سے ٹکرانے اور انکے ظلم کا خاتمہ کرنے کے لیے اللہ تعالٰی نڈر اور شیر دل جیالے بھی پیدا کرتا رہا جو کسی جابر کے جبر اور ظالم کے ظلم کے سامنے جھکتے نہیں بلکہ بے خوفی کے ساتھ انکا مقابلہ کرتے ہیں۔

انھیں اسیر زنداں بھی کیا جاتا رہا اور قید خانوں میں بدترین ٹارچر بھی، وہ دار پر بھی کھینچے گئے لیکن کوئی ظلم انھیں روک نہیں سکا اور نہ کوئی طاقت انھیں دبا سکی۔

گھروں سے تا در زنداں وہاں سے مقتل تک
ہر امتحاں سے تیرے جاں نثار گزرے ہیں

جو شہر شہر اڑاتے تھے ہوش کا پرچم
تری گلی سے دیوانہ وار گزرے ہیں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *