ہندوستانی مسلمانوں کا جمود

ہیڈگیوار، آر ایس ایس کے پہلے سر سنگھ چالک تھے، جن کے دور میں آر ایس ایس اور ساورکر کے تعلقات نہایت خوشگوار رہے۔ لیکن ہیڈگیوار کی وفات کے بعد، گولوالکر سنگھ سر چالک کے طور پر ابھرے، اور یہ دور ساورکر اور آر ایس ایس کے تعلقات میں بگاڑ کا آغاز ثابت ہوا۔ ساورکر عملیت پسندی اور ملٹنٹ ہندوتوا کے پرچارک تھے، جب کہ گولوالکر تنظیمی مضبوطی، آئیڈیالوجی اور افراد سازی پر توجہ مرکوز رکھتے تھے۔ ان کے نزدیک سیاست اور ملٹنسی سنگھ کے لیے نقصان دہ تھیں۔

ساورکر، جن کی زندگی عملی جدوجہد کی علامت تھی، گولوالکر کی اس حکمت عملی کو فرار قرار دیتے تھے۔ انہوں نے آر ایس ایس پر سخت تنقید کرتے ہوئے لکھا:

\”The epitaph on a Sangh swayamsevak will be: \’He was born; he joined RSS; he died\’.\”

\”ایک سیوم سیوک کی سمادھی پر یہ لکھا جائے گا: وہ پیدا ہوا، آر ایس ایس میں شامل ہوا اور مر گیا۔\”

آنے والے وقت میں آر ایس ایس نے حالات کے مطابق خود کو ڈھال لیا اور بقا کی جدوجہد جاری رکھی، جب کہ ہندو مہاسبھا جمود کا شکار ہو کر سمٹتی چلی گئی۔ یوں ساورکر کا طنزیہ تبصرہ، ہندو مہاسبھا کے لیے تو سچ ثابت ہوا لیکن آر ایس ایس وقت کے دھارے کے ساتھ چلتے ہوئے اپنی بنیادیں مضبوط کرنے میں کامیاب رہی۔

یہ حقیقت محض آر ایس ایس تک محدود نہیں، بلکہ دنیا بھر کی جماعتوں، تحریکوں اور قوموں پر لاگو ہوتی ہے۔ جو تنظیمیں اور قومیں حالات کے تقاضوں کے مطابق اپنی حکمت عملی نہیں بدل پاتیں، وہ جمود کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ان کی سرگرمیاں ایک رسمی عمل بن کر رہ جاتی ہیں—بظاہر کام تو ہوتا رہتا ہے، لیکن آگے بڑھنے کا عمل رک جاتا ہے۔

آج ہندوستانی مسلمانوں بھی شاید اسی جمود کی شکار ہو چکے ہیں۔ ان کی اکثر اجتماعیتیں، جنہیں کسی منزل کا شعور ہونا چاہیے تھا، محض ایک روایتی عمل بن کر رہ گئی ہیں۔ غلام محمد قاصر نے اس کیفیت کو دو اشعار میں نہایت بلیغ انداز میں بیان کیا ہے:

کشتی بھی نہیں بدلی، دریا بھی نہیں بدلا
اور ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلا

ہے شوقِ سفر ایسا، اک عمر سے یاروں نے
منزل بھی نہیں پائی، رستہ بھی نہیں بدلا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *