سعادت حسن منٹو کے بارے میں ایک واقعہ مشہور ہے کہ جب ہندوستان میں فرقہ وارانہ تصادم بڑھا تو منٹو نے ہندوستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس پر ان کے دوست شیام چڈا نے منٹو کی الماری سے شراب کی بوتل اٹھاتے ہوئے کہا، \” ویسے بھی تو کون سا بڑا مسلمان ہے جو پاکستان جا رہا ہے۔\” تو منٹو نے جواب دیا، \”اتنا تو ہوں کہ مارا جا سکوں۔\”
منٹو مذہبی طور پر چاہے جیسے بھی مسلمان رہے ہو، لیکن انھیں اپنی قومی حیثیت کا بخوبی احساس تھا اور وہ اس کی نزاکتوں کو سمجھتے تھے۔
گزشتہ چند برسوں میں بھارتی مسلمانوں کے لیے زمین تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ یکے بعد دیگرے ادارے، تنظیمیں، اور افراد کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ کچھ لوگوں کو یہ گمان تھا کہ صرف ان مسلمانوں کو نشانہ بنایا جائے گا جو ملت کے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں گے یا مشکل وقت میں ڈٹ کر کھڑے ہوں گے، لیکن بدلتے ہوئے حالات نے ثابت کیا کہ یہ محض خام خیالی تھی۔ موجودہ حالات یہ اشارہ دیتے ہیں کہ وہ لوگ جو خاموشی سے اپنے کاموں میں مصروف تھے یا اپنی زندگی سکون سے گزار رہے تھے اور ان مسائل سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے، اب وہ بھی نشانے پر ہیں۔ وہ شاید یہ بھول گئے تھے کہ چاہے وہ سیاست میں دلچسپی لیں یا نہ لیں، سیاست کو ان میں دلچسپی ضرور ہے۔
وہ جو آسودہ ساحل ہیں انہیں کیا معلوم
اب کے موج آئی تو پلٹے گی کنارے لے کر
لہٰذا یہ سمجھنا ضروری ہے کہ حالات کا مقابلہ پوری ملت کو مل کر کرنا ہوگا کیونکہ یہ چیلنج کسی مخصوص جماعت، ادارے، یا فرد کے لیے نہیں بلکہ پوری ملت کے لیے ہے۔ انتظار نہ کریں کہ آپ کا نمبر کب آتا ہے، کیونکہ اس وقت شاید آپ کے حق میں آواز اٹھانے والا کوئی نہ بچے۔
اسے سمجھنے کے لیے تاریخ میں مارٹن نیمولر کی مثال بہت مناسب ہے۔ وہ ایک جرمن پادری تھے، جو ابتدا میں کمیونزم کے مخالف تھے اور ایڈولف ہٹلر کے اقتدار میں آنے کی حمایت کرتے تھے۔ لیکن جب ہٹلر نے اقتدار حاصل کر لیا اور ریاست نے مذہب پر بالادستی کا اصرار کیا، تو نیمولر مایوس ہو گئے۔ وہ جرمن مذہبی رہنماؤں کے ایک گروہ کی سربراہی کرنے لگے جو ہٹلر کی مخالفت کر رہے تھے۔
1937 میں انہیں گرفتار کر کے ساکسن ہاؤزن کے کیمپ میں قید کر دیا گیا۔ بعد میں انہوں نے ہٹلر کا ساتھ دینے کی اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور ان کی اعترافی نظم تاریخ کا ایک عبرتناک حصہ بن گئی۔
